ذبحِ عظیم کی ناقابلِ فراموش داستان۔| تحریر: اقبال حسین اقبال
آپ تخیل کے تیز ترین گھوڑے پر سوار ہو کر چار ہزار سال پیچھے منیٰ چلے جائیں۔آپ کے سامنے ذبحِ عظیم کا منظر کشاء ہو گا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر کو صرف اللہ کی رضا کے واسطے تپتی ریت پر لٹا کر ذبح کر رہا ہو گا۔یہ کس قدر کڑا امتحان اور صبر آزما سماں ہو گا ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔یہ منظر اس قدر حُزن سے بھر پور ہو گا کہ آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔شاید آپ پر یہ کرب ناک لمحہ گراں گزرے اور آپ اپنی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے بند کر دیں۔
ایسا کیوں نہ ہو کیوں کہ ستر سال کی عمر میں حضرت ابراہیم خلیل کو اللہ نے بیٹے سے نوازا۔ایسا بیٹا جو انتہائی حسین و جمیل ہے۔فرماں بردار ہے اور سلسلہ نبوت بھی منتقل ہونے والی ہے۔جب یہ بچہ تیرہ برس کی عمر کو پہنچا تو اللہ پاک ایک انوکھے انداز کے ذریعے سے انھیں سخت آزمائش میں ڈالتا ہے۔انھیں منیٰ پر اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کا حکم ملا۔اولاد کو ذبح کرنے کی ایسی روایت اس سے قبل نہ تھی اور نہ ہی بعد کے ادوار میں آنے کا امکان ہے۔اپنے جگر گوشے کو اپنے ہاتھوں سے موت کے حوالے کرنا آسان بات نہ تھی۔اسی لئے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کسی تذبذب کا شکار ہوئے بغیر تاریخ کے کورے صفحے پر ایک ایسی کہانی ثبت کر لیتے ہیں’ جو آئندہ نسلوں کے لیے اتہاس بن گئی ہے۔
یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
دوسری جانب آپ اس زمانے پر نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں لوگ عید الاضحٰی کے لیے جانوروں کو سارا سال بڑے لارڈ پیار سے پالتے ہیں۔نہلاتے ہیں، اچھی خوراک کھلاتے ہیں، انھیں گلی کوچوں، بازاروں، چوراہوں اور محلوں میں بطور نمائش گھوماتے، پھراتے ہیں۔گھر کے تمام افراد کو اس جانور سے بے پایاں اُنس و محبت ہوتی ہے مگر عید الاضحٰی کے دن ایسی ویڈیوز سامنے آرہی ہیں جن میں لوگ اپنے ہاتھوں سے پالے ہوئے جانوروں کو فروخت کرتے یا راہِ خدا میں ذبح کرتے ہوئے اشک بار ہوتے ہیں۔آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں۔اُداس دلوں پژمردہ چہروں کے ساتھ اپنے اس جانور کو خود سے جدا کرتے ہیں۔یہ اسی لیے ہوتا ہے کہ ان کا بڑے ناز سے پالا ہوا جانور ان سے بچھڑ کر موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی حالتِ قلبی سے واقف ہے اسی لیے اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دُنبہ ذبح ہو گیا۔لہذٰا میں سمجھتا ہوں کہ ذبحِ عظیم کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرنے سے زیادہ تقویٰ کی چھری سے غرور، تکبر، بغض و عداوت، انائیت کو ذبح کرنے کی ضرورت ہے۔