سرحدوں سے آگے پاک ایران تعلقات کی نئی سمت۔ | تحریر: ارشد قریشی
گذشتہ دنوں ایرانی صدر، ڈاکٹر مسعود پزشکیان، پاکستان تشریف لائے ۔جب سے انہوں نے صدارت سنبھالی ہے یہ اُن کا پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے ۔ ان کی آمد کا پاکستان میں سیاسی سطح پر بڑا خیرمقدم کیا گیا، جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم پاکستان وزیر اعظم شہباز شریف نے خود اسلام آباد کے نور خان ایئر بیس پر ان کا استقبال کیا ۔
صدرڈاکٹر مسعود پزشکیان نے لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی، جہاں انہوں نے علامہ اقبال کے مشن اور اسلامی فلسفے پر عقیدت کا اظہار کیا ۔ اس طرح کا اقدام دونوں ممالک کے ثقافتی اور روحانی تعلقات کی بھی علامت تھا۔
پاکستان اور ایران کا باہمی رشتہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ سے ہی شروع ہوتا ہے، جب ایران نے پاکستان کو پہلے تسلیم کیا۔ دونوں نے سرد جنگ کی مدت میں ایک ہی سیاسی جہت اختیار کی، سینٹو اتحاد میں شراکت کی، اور مشترکہ دفاعی و اقتصادی تعاون برقرار رکھا۔
گذشتہ دہائیوں میں واتنی سلامتی، افغان معاملہ، بلوچستان کی امن و امان اور اقتصادی پابندیوں کی صورت حال نے ان تعلقات میں تلخی اور کشیدگی بھی پیدا کی ۔ جیسا کہ جنوری ۲۰۲۴ میں دونوں ممالک نے متقابل فضائی کارروائیاں کیں، لیکن چند روز بعد سفارت کاری کے ذریعے تناؤ کو ختم کیا گیا، اور دورہ وزیر خارجہ ایران کی پاکستان آمد کے ذریعے معاملات بحال ہوگئے۔
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے اس دورے کا بنیادی مقصد دوطرفہ تجارت میں توسیع، سرحدی تحفظ، توانائی کے منصوبے، اور ثقافتی تبادلے تھا۔ صدر پزشکیان کی قیادت میں اعلی سطحی ایرانی وفد نے پاک فوج اور سیاسی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جس میں صدر زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر عہدیدار شامل تھے۔
دونوں ممالک نے تجارت کو ۱۰ ارب ڈالر تک بڑھانے کے ہدف کا اعلان کیا جو ایک واضح معاشی عزم ہے۔
اس ضمن میں پاکستان نے ایران کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت بھی دی تاکہ علاقائی رابطوں اور معاشی سودے بازی میں مزید بہتری لائی جاسکے ۔
دورے کے دوران دونوں حکومتوں کے درمیان ۱۲ ایم او یوز پر دستخط کیے گئے جن میں۔ پودوں کے تحفظ اور کوارنٹائن پر تعاون، میر جاوے، تفتان سرحدی کراسنگ کے مشترکہ استعمال کا معاہدہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت میں تعاون،اطلاعاتی ومواصلاتی ٹیکنالوجی میں تعاون،ثقافت، فنون، سیاحت ، نوجوانوں اور میڈیا میں تعاون، ماحولیات اور موسمیات کے شعبے میں تعاون ، سرحدی تجارت اور بارڈر مارکیٹس کی ترقی، تعلیمی و تحقیقی تعاون ، فنی اور پیشہ ورانہ تربیت میں تعاون، صنعت و معدنیات میں تعاون، زراعت اور فوڈ سکیورٹی کے شعبہ میں تعاون، صحت اور میڈیکل سائنسز میں تعاون ۔
یہ معاہدے نہ صرف اقتصادی و تجارتی ڈھانچے کو مضبوط بنائیں گے بلکہ سکیورٹی اور بین الثقافتی شعبوں میں بھی شراکت داری کو فروغ دیں گے۔ اس سے خاص طور پر سرحدی شہروں میں امن و ترقی کے اُمیدیں پیدا ہوتی ہیں۔
ایران پاکستان گیس پائپ لائن، یا پیِس پائپ لائن، ایک قدیم منصوبہ ہے جس کا آغاز ۲۰۱۱ میں ہوا۔ ایران نے اب تک اپنا حصہ مکمل کر لیا مگر پاکستان نے طویل عرصے پیر اس کا اپنا سیکشن نہ شروع کیا تاہم ا ب پاکستان نے ۲۰۲۴ میں اس کی تعمیر کی منظوری دے دی تھی، اور ایران نے بھی $۵۰۰ ملین قرض کی پیشکش کی تھی۔ موجودہ دورے میں اس منصوبے کو دوبارہ قابل عمل بنانے کی امید کی گئی ہے، خاص طور پر جب دونوں ممالک نے اقتصادی و سکیورٹی تعاون کو فروغ دینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
دونوں ممالک نے سیستان و بلوچستان کے جرائم، اسمگلنگ اور دہشت گردی کے معاملات میں باہمی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ خاص طور پر سرحدی حفاظتی اقدامات پر توجہ دی گئی، اور سرحدی چوکیوں کے تعاون میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے اس سرکاری دورے نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی سمت دی ہے۔ ۱۰ ارب ڈالر تجارت کا ہدف، توانائی کے بڑے منصوبوں کی تکمیل، سرحدی تعاون اور ثقافتی رابطے ایک نئے دور کی شروعات ہیں۔ اگرچہ تاریخی تلخیاں، عالمی پابندیاں اور انرجی بحران اب بھی سامنے ہیں، مگر اس دورے نے ایک واضح بیان دیا کہ دونوں ممالک اپنا رابطہ مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
صدر مسعود پزشکیان کا یہ دورہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ اس نے واضح پیغام دیا کہ دونوں طرف کے حکمران اب صرف تناؤ کو قابو میں کرنے کی بجائے ترقی اور تعاون پر متفق ہیں۔
سرحدی تعاون، ثقافتی ہم آہنگی، توانائی شراکت اور تجارت کا مقصد یہ تمام عوامل اس بات کی عکاسی کرتے ہیں جہاں پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے شراکت داروں کی حیثیت سے دیکھے جا رہے ہیں کہ اگر یہ معاہدات عملی صورت اختیار کر لیں تو دونوں ممالک کے عوام کے لیے امن، روزگار اور خوشحالی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔