سیاسی بُرج کس سمت جھک رہے ہیں؟۔| تحریر:افضل رضوی
دنیا کی کوئی بھی سیاسی تاریخ ہو، اس میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب پرانے نظام، چہرے یا بیانیے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں اور ایک نیا سیاسی رخ، نیا بیانیہ، یا نیا اتحاد ابھرتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے — ایک عبوری دور، جس میں سیاسی بُرج اپنی جگہ چھوڑ کر کسی نئی سمت جھکنے لگے ہیں، لیکن یہ سمت کیا ہے؟ کون اسے متعین کرے گا؟ اور عوام کو اس سے کیا حاصل ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔
موجودہ سیاسی تناظر
پاکستان کی سیاست گزشتہ دو دہائیوں سے ایک مستقل بحران کا شکار ہے، لیکن 2022ء کے بعد سے یہ بحران کسی حد تک سنگین تر ہو چکا ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد، عمران خان کی گرفتاری، سیاسی انتقامی کاروائیاں، عدالتی فیصلوں میں تضادات، اور اب 2024ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال ، سب نے یہ واضح کر دیا ہے کہ محض شخصیات کی تبدیلی سے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ اصل مسئلہ اداروں کا باہمی تصادم، جمہوری اقدار کی کمزوری، اور اقتدار کی ہوس میں اندھی سیاسی دوڑ ہے۔
نئی صف بندی: پرانے چہرے، نئی شکلیں ملک کی سیاسی جماعتوں نے گویا نئی صف بندی شروع کر دی ہے۔ ایک طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے جو تجربہ کار سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے قریب حلقوں کے ساتھ دوبارہ مرکزِ اقتدار بننے کی کوشش میں کامیاب ہو چکی ہے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو سندھ کے اقتدار کو بنیاد بنا کر قومی سیاست میں دوبارہ جگہ بنانے کی آرزو رکھتی ہے۔ تیسری طرف، عمران خان کی تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ہے جو قانونی اور سیاسی دباؤ کے باوجود عوامی سطح پر اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔لیکن اندرونی خلفشار کا شکار ہے
ان جماعتوں کی نئی حکمتِ عملی، اتحادوں کی بدلتی نوعیت، اور عدالتوں و اداروں کے فیصلے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سیاسی بُرج نہ صرف ہل چکے ہیں، بلکہ اب نئی سمت کی تلاش میں جھک رہے ہیں۔ تاہم یہ جھکاؤ کسی اصولی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں، بلکہ وقتی مفادات کی مجبوری معلوم ہوتی ہے
اسٹیبلشمنٹ کا کردار: پس پردہ یا پیش منظر؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ایک غیر تحریری طاقت رہی ہے۔ کبھی پسِ منظر میں، کبھی پیش منظر میں، لیکن اس کے اثرات ہر بڑے فیصلے میں محسوس کیے گئے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ کردار اور بھی واضح ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اب بھی سیاسی صف بندی میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے؟ یا اس نے خود کو “نیوٹرل” ثابت کرنے کی کوشش کے باوجود ایک مخصوص بیانیے کو پروان چڑھانے میں مدد دی ہے؟
حالیہ عدالتی فیصلے، میڈیا پر بیانیہ سازی، اور بعض غیر متوقع سیاسی اتحاد اس تاثر کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ کس سمت ہے — لیکن یہ جھکاؤ اگر جمہوریت کی بجائے اقتدار کے تسلسل اور ادارہ جاتی تحفظ کو ترجیح دے، تو پھر سیاسی بُرج جمہوریت کے بجائے مصلحت کی طرف جھکیں گے۔
عوام کہاں کھڑے ہیں؟
عوام سیاسی نظام کے اصل محور ہونے چاہییں، لیکن پاکستان میں عوام ہمیشہ سب سے آخر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آج بھی مہنگائی، بے روزگاری، بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ، اور معاشی غیر یقینی صورتِ حال نے عوامی شعور کو تھکا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اب صرف نجات دہندہ تلاش کرتے ہیں، خواہ وہ کوئی بھی ہو ،مگر یہ رجحان جمہوریت کے بجائے شخصیت پرستی کو فروغ دیتا ہے۔
عوام اگر اپنی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے، اور نعرے بازی کی بجائے پالیسی پر فیصلہ کرتے، تو شاید سیاسی بُرج بھی جمہوری بنیاد پر اپنی سمت متعین کرتے۔ مگر جب انتخابی فیصلہ جذبات اور تعصبات کی بنیاد پر ہو، تو جھکتے ہوئے برج ہمیشہ ماضی کی غلطیوں کو دہراتے ہیں
آگے کا راستہ: اصلاح یا انہدام؟
اب سوال یہ ہے کہ سیاسی بُرج کس سمت جھکنے چاہییں؟ اصلاح کی سمت یا انہدام کی؟ اصلاح کی سمت وہی ہے جو ادارہ جاتی توازن، آئین کی بالادستی، عدلیہ کی غیرجانبداری، اور میڈیا کی آزادی سے مشروط ہو،مگر جب انہدام کا رجحان غالب ہو ،جیسا کہ حالیہ سیاسی اور عدالتی تصادم سے ظاہر ہوتا ہے ؛تو پھر صرف سسٹم کا بحران نہیں ہوتا، بلکہ ریاست کی وحدت بھی خطرے میں پڑتی ہے۔
یہی وقت ہے کہ اہلِ دانش، سول سوسائٹی، میڈیا، اور نئی نسل — سب مل کر اس سوال پر غور کریں: کیا ہم سیاسی برجوں کو دوبارہ جمہوری، آئینی اور عوامی مفاد کی بنیاد پر کھڑا کر سکتے ہیں؟ یا ہم ایک بار پھر تاریخ کے اُس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سمت کا تعین فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ۔
جھکاؤ سے استحکام تک کا سفر
سیاسی بُرج جھک رہے ہیں ،یہ حقیقت ہے، لیکن کیا وہ کسی بہتر سمت میں جھک رہے ہیں؟ اس کا جواب ہم سب کے رویّے، انتخاب، اور سیاسی شعور میں پوشیدہ ہے۔ صرف شخصیات بدلنے سے نہیں، بلکہ نظام کی اصلاح سے ہی پاکستان کی سیاست میں وہ استحکام آ سکتا ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔
اگر سیاسی قیادت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے، اور ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں، تو پھر یہی جھکتے ہوئے بُرج ایک نئے، مستحکم، اور باوقار پاکستان کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست ہر دور میں بحران، بے یقینی اور شخصی مفادات کے گِرد گھومتی رہی ہے، مگر موجودہ دور میں سیاسی منظرنامہ جس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، اس نے ملک کے جمہوری ڈھانچے، ریاستی اداروں، اور عوامی توقعات کے درمیان ایک کشمکش کی فضا پیدا کر دی ہے۔
ملک کی سیاست میں حالیہ تبدیلیاں محض شخصیات یا پارٹیوں کی شکست و فتح کی کہانیاں نہیں، بلکہ یہ اس گہرے سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کی علامت ہیں جو اس ریاست کو عرصۂ دراز سے درپیش ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا سایہ یا عوام کی آواز؟
پاکستان میں طاقت کی اصل محور ہمیشہ سیاسی حکومتیں نہیں رہیں۔ جب بھی کوئی سیاسی رہنما عوامی مقبولیت حاصل کرتا ہے، تو اس کے گرد شکوک و شبہات کی فضا بنا دی جاتی ہے۔ عمران خان کی سیاسی تنہائی اور ادارہ جاتی ٹکراؤ، اس حقیقت کو پھر نمایاں کر چکا ہے کہ ریاست میں اصل اقتدار کہاں مرکوز ہے۔
سیاسی جماعتیں، نظریہ کہاں گیا؟
ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں خاندانی وراثتوں، شخصی عقیدتوں اور وقتی مفادات کے تابع نظر آتی ہیں۔ پارٹی منشور، تنظیمی ڈھانچہ اور پالیسی سازی سب کچھ چند مخصوص افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس ماحول میں نظریاتی سیاست کی بقا تقریباً نا ممکن ہو چکی ہے۔
عوام: تبدیلی کے منتظر یا مایوس؟
ہر الیکشن میں عوام نئے وعدوں، نعروں اور دعووں پر اعتماد کرتے ہیں، لیکن مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کے بنیادی مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ حکومتیں بدلتی ہیں، مگر نظام نہیں بدلتا۔
نوجوان نسل کی بیداری
سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو ایک نیا پلیٹ فارم دیا ہے، جہاں سیاسی شعور اور رائے کا اظہار ممکن ہوا ہے۔ تاہم، یہ شعور اگر تربیت یافتہ نہ ہو تو محض جذباتی نعروں کا شکار ہو کر انتہا پسندی کو فروغ دے سکتا ہے۔
ریاستی ادارے: غیر جانبداری کا امتحان
عدلیہ، نیب، الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے اکثر متنازع فیصلوں یا دوہری پالیسیوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ادارہ جاتی غیر جانبداری وہ ستون ہے جس پر جمہوریت کا توازن قائم رہتا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ ستون بار بار ہلتا نظر آتا ہے
پاکستان کی بدلتی سیاست ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ محض چہروں کی تبدیلی سے حالات نہیں بدلیں گے۔ جب تک سیاسی جماعتیں خوداحتسابی، داخلی جمہوریت، اور عوامی خدمت کو اپنا نصب العین نہیں بناتیں، تب تک یہ تبدیلی صرف چہرے بدلنے کا کھیل ہی رہے گی۔ حقیقی تبدیلی اس وقت ممکن ہو گی جب طاقت کا سرچشمہ واقعی عوام ہوں اور سیاست ایک عبادت، نہ کہ تجارت بنے۔