عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان۔ | تحریر: عرشی عباس

عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کو مختلف طریقوں سے نمایاں طور پر متاثر کرتی ہیں جس کی وجہ سے آب و ہوا، معیشت اور آبادی متاثر ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی بدولت درجہ حرارت میں اضافہ ایک سب سے اہم مسئلہ  ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں اوسط درجہ حرارت زیادہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ گرمی کی لہریں، خاص طور پر شہری علاقوں کو متأثر کررہی ہیں۔

پاکستان کے موسم میں انتہائی زیادہ اور انتہائی کم درجہ حرارت، شدید ترین بارشیں اور سیلاب شامل ہیں یہی نہیں بلکہ پاکستان دنیا کے بلند ترین درجہ حرارت کی حدود میں سے ایک ہے (درجہ حرارت کی حد سے مراد اب تک کے سب سے زیادہ اور سب سے کم ریکارڈ کیے گئے درجہ حرارت کے درمیان فرق ہے) ثابت شدہ موسمی حالات صحرائے صحارا کی طرح بہت زیادہ گرمی سے لے کر الاسکا کی طرح کم گرمی تک ہیں۔  اسے دنیا کے سب سے زیادہ موسمی لحاظ سے متنوع ممالک میں سے ایک کہا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 53.08  ، 128.08 ڈگری فارن ہائیٹ ہے جو بالترتیب 28 مئی 2017 اور 26 مئی 2010  کوتربت، بلوچستان اور موئنجودڑو  سندھ میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔یہ نہ صرف پاکستان میں ریکارڈ کیا گیا اب تک کا گرم ترین درجہ حرارت تھا بلکہ براعظم ایشیا میں ریکارڈ کیا گیا سب سے زیادہ قابل اعتماد درجہ حرارت اور زمین پر ریکارڈ کیا گیا چوتھا سب سے زیادہ درجہ حرارت بھی تھا۔   اس کے بعدمئی 2024میں پاکستان کے صوبہ سندہ میں درجہ حرارت  52 ڈگری سیلسیس(125.6ڈگری فارن ہائیٹ) سے بڑھ  گیاتھا۔یہ اس موسم سرما کا سب سے زیادہ درجہ حرارت تھا۔

دنیا کی سب سے زیادہ 620 ملی میٹر (24 انچ) بارش 23 جولائی 2001 کو اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئی۔ یہ ریکارڈ توڑ بارش صرف 10 گھنٹوں میں ہوئی تھی۔پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم سے متأثر ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔

گرمی کی لہریں زیادہ تر گرمیوں کے مہینوں میں ہی آتی ہیں لیکن پاکستان میں گرمی کی لہریں اپریل اور ستمبر کے درمیان کسی بھی وقت آتی ہیں اور جس کی وجہ سے پاکستان کے شہریوں کو بہت زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا کرنا پڑتا ہے, لیکن سب سے زیادہ طاقتور گرمی کی لہریں مئی اور جون میں آتی ہیں۔

جنوبی پاکستان کے کچھ علاقے عام طور پر 50 یعنی 122 ڈگری فارن ہائیٹ  سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرتے ہیں  پاکستان   کی  تاریخ کی سب سے مہلک گرمی کی لہر 2010 کے موسم گرما کی ریکارڈ توڑ گرمی کی لہر ہے جو مئی کے آخری دس دنوں میں آئی تھی۔  جس کی بدولت پورے پنجاب اور کے پی کے سمیت ملک کے شمالی وسطی علاقوں میں گرمی پھیل گئی تھی۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ ہمارا ملک پاکستان پہاڑوں پہ موجود برف کے پگھلنے کے عمل کے سبب ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے میں گلیشیئرز کے پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن جب گلوبل وارمنگ سے برف کے پگھلنے کے عمل میں تیزی آتی ہے تو یہی پانی دریاٶں میں طغیانی کا سبب بن جاتا ہے اور جس سے پانی کی قلت اور زرعی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ مون سون کے سلسلے میں بے ربطگی غیر متوقع بارشوں کا سبب بنتی ہے، جس سے زراعت متاثر ہوتی ہے اور سیلاب اور خشک سالی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان کو آنے والے وقتوں میں ان جیسے بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا اگرہم ان تمام چیزوں پر قابو نہیں پائیں گے۔

کیوں کہ پاکستان کو دریاؤں کے بہاؤ میں کمی اور پانی کے غیر موثر انتظام کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں ان مسائل کو بڑھا رہی ہیں۔دوسری طرف یہی زراعت کے لیے خطرہ کا باعث بن جاتی ہے،جبکہ پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ زراعت سے متصل ہے۔

درجہ حرارت اور بارش کے انداز میں تبدیلی دراصل فصل کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ طویل خشک سالی اور غیر متوقع موسم خوراک کی قلت کا باعث بن سکتا ہے، جس سے غذائی تحفظ اور قیمتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔پاکستان شدید بارشوں اور برف کےپگھلنے کی وجہ سے اکثر سیلاب کا سامنا کرتا ہے۔ یہ سیلاب جانی نقصان، برادریوں کی نقل مکانی، اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں صحت پر بھی اپنے برے اثرات مرتب کرتے ہیں جیسے گرمی سے متعلق بیماریوں ملیریا، ڈینگی، ہوا کے خراب معیار کی وجہ سے پھیپھڑوں سے متعلق بیماریاں وغیرہ۔دوسری طرف اگر دیکھا جاۓ تو پاکستان میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر صحت کے مساٸل براہ راست یا بالواسطہ آلودہ پانی کی وجہ سے ہیں۔ 45% بچوں کی اموات اسہال اور 60% مجموعی طور پر پانی سے ہونے والی بیماریوں سے ہوتی ہیں۔اور یہ آلودہ پانی بھی ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی بنا پر ہم تک پہنچتا ہے۔

اگر ہم دیکھیں تو یہی ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کی معیشت پر گہرا اثر  بھی ڈالتی ہیں۔ کیوں کہ زراعت، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جب  موسمیاتی تغیرات کا شکار ہوتی ہے تواس سے ہمارا معاش متاثر ہوتا ہے جو کہ معاشی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔

 پاکستان ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیااقدامات کر رہا ہے 

بلین ٹری سونامی جیسے اقدامات کا مقصد جنگلات کے احاطہ کو بڑھانا اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنا ہے۔

پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے پانی کے تحفظ، ذخیرہ اندوزی اور انتظام کو بہتر بنانے کے حوالے سے منصوبے جاری ہیں۔

شمسی، ہوا اور پن بجلی میں سرمایہ کاری کا مقصد فوسل ایندھن پر انحصار کم کرنا اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا ہے۔

سب سے اہم مسئلہ پاکستان کو ہر سال آنے والے سیلاب سے نبردآزما ہونا ہے اور اس مقصد کے لیے یعنی سیلاب اور دیگر شدید موسمی واقعات کا بہتر جواب دینے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کو مضبوط بنانا ہوگا۔

پاکستان ای پی اے (ماحولیات کے تحفظ کی ایجنسی) دراصل بدلتے ہوئے آب و ہوا اور اس کے پاکستانی آبادی پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے مقصد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ حکومت پاکستان کی ایک ایگزیکٹو ایجنسی ہے جس کا انتظام وزارت موسمیاتی تبدیلی کے زیر انتظام ہے۔

 اگست 2023 میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ پنجاب کے سیلاب زدہ دیہاتوں سے تقریباً 100,000 لوگوں کو نکالا گیا ہے، اس مون سون سیزن کے دوران پورے پاکستان میں بارش سے ہونے والی 175 سے زیادہ اموات، بنیادی طور پر بجلی کا کرنٹ لگنے اور عمارتیں گرنے سے ہوئیں۔  یہ واقعات پاکستان میں جامع آب و ہوا کی لچک اور ہنگامی ردعمل کی حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

ایک اور اہم بات کہ پاکستان پیرس معاہدے جیسے عالمی معاہدوں کا حصہ ہے، جو بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر موسمیاتی موافقت اور تخفیف کے لیے فنڈنگ ​​اور ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے اہم چیلنجز کا باعث ہیں، ان اثرات کو کم کرنے اور لچک پیدا کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوششیں کرنابہت اہم ہیں۔

عرشی عباس
عرشی عباس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link