سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کی ترقی کا راز۔ || تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں چین نے 2023 کے لئے سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی اور صنعتی ٹیکنالوجی میں بنیادی امور سے متعلق ایک فہرست جاری کی ہے.ان میں مصنوعی ذہانت (اے آئی)، نئی توانائی، اعلیٰ کارکردگی کے مواد اور لائف سائنسز جیسے شعبوں میں مجموعی طور پر 29 امور پر روشنی ڈالی گئی۔رواں سال ملک بھر میں چینی ماہرین کی جانب سے بنیادی سائنس، ارضیاتی سائنس، ماحولیات، مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، جدید مواد، وسائل اور توانائی، زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی، لائف ہیلتھ اور ایرو اسپیس سائنس میں سائنس ٹیک کے امور سے وابستہ 590 تجاویز موصول ہوئی ہیں۔چینی ماہرین نے جن امور کو زیادہ اجاگر کیا اُن میں کم توانائی کی کھپت والی اے آئی کو کیسے محسوس کیا جائے، نئے پاور سسٹم کے لئے طویل مدتی توانائی ذخیرہ کرنے کے طریقے کیا ہیں، اور چین کے مستقبل کے الٹرا ہائی اسپیڈ ریل نقل و حمل کی گاڑیوں اور آلات میں کاربن فائبر کمپوزٹ مواد کے اطلاق میں کامیابیاں کیسے حاصل کی جائیں ، جیسے امور شامل ہیں۔مجموعی طور پر 117 ماہرین نے ان سائنسی و تکنیکی امور سے جڑے معاملات کے حوالے سے سفارش اور جائزے میں حصہ لیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران چین نے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے شمار کمالات دکھائے ہیں اور تکنیکی اعتبار سے آپ کسی بھی پیش رفت کا تذکرہ کریں،چین آپ کو صف اول میں نظر آئے گا. اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں ٹیکنالوجی دوست رویے ہیں جن کی بنیاد پر حالیہ برسوں میں چین نے تکنیکی شعبے میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو ہمیشہ فوقیت دیتے ہوئیآج چین اختراعات کی نمایاں ترین اقوام اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔وسیع تناظر میں،حالیہ برسوں میں چین نے آر اینڈ ڈی میں اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ ملک نے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے آر اینڈ ڈی کا فروغ، انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی ترقیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو پیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے آر اینڈ ڈی میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔
انہی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ چین نے اعلیٰ معیار کی نیچرل سائنسی تحقیق میں پہلی بار امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور 2022 میں ٹاپ جرنلز میں شائع ہونے والے مقالوں میں چین پہلے نمبر پر رہا ہے۔نیچر انڈیکس کی جانب سے 82 جرائد کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق گزشتہ سال جنوری سے دسمبر کے دوران چین کا شیئر 19 ہزار 373رہا جبکہ امریکہ کا حصہ 17 ہزار 610 تھا۔نیچر انڈیکس باقاعدگی سے بین الاقوامی سطح پر معروف سائنس اور ٹیکنالوجی پبلشنگ ادارے ”اسپرنگر نیچر گروپ” کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ یہ 82 معتبر جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں پر نظر رکھتا ہے، اور متعلقہ اداروں، ممالک یا خطوں کی جانب سے شائع ہونے والے مقالوں کی مقدار اور تناسب کی بنیاد پر عالمی اعلیٰ معیار کی تحقیقی کاوشوں اور تعاون کی عکاسی کرتا ہے.ان 82 اعلیٰ معیار کے جرائد میں چار شعبوں لائف سائنسز، فزیکل سائنسز، ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز اور کیمسٹری جیسے سیل، نیچر، کیمیکل کمیونیکیشنز اور فزیکل ریویو لیٹرز شامل ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ چین کی سائنس و ٹیکنالوجی نے گزشتہ ایک دہائی میں تاریخ کی کسی بھی دوسری دہائی کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کی ہے۔اس عرصے کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی تاریخی پیش رفت ”جامع تو ہے ہی” مگر اس کی بدولت آج چین اختراعات کے حوالے سے دنیا کی صف اول کی ایک طاقت بن چکا ہے اور نہ صرف چینی عوام بلکہ دنیا کے لیے بھی بے شمار ثمرات لا رہا ہے۔