سیاحتی مقامات پر انسانی مداخلت۔|تحریر: اقبال حسین اقبال

صبح آٹھ بجے سے دو بجے تک کلاسیں پڑھانے کے بعد تھک ہار کر گھر آتا ہوں۔گھر میں آدھا گھنٹہ گزار کر اپنی دکان پر آتا ہوں۔آپ چھلت مین بازار سے سونی کوٹ روڈ پر پچاس قدم چلیں تو گلی کے نُکڑ پر میری سٹیشنری کی چھوٹی سی دکان ہے’جہاں میں رات کے ساڑھے نو بجے تک رہتا ہوں۔دکان پر اکثر میرے استاد محترم حیدر خان حیدرؔ بھی تشریف لاتے ہیں۔حیدر خان صاحب بیس گریڈ کے منتظمِ اعلیٰ ہیں۔علمی و ادبی دنیا میں ان کا ایک مستند نام ہے۔یہ جمال فرش و فلک جیسی شان دار شعری گلدستے کے خالق بھی ہیں۔ان سے ادبی دنیا کے بارے میں ہماری ڈھیروں باتیں ہوتی رہتی ہیں۔پاس ہی ایک ہوٹل ہے جہاں کی چائے ہماری گفتگو کو اور بھی شیرین بنا دیتی ہے۔استاد محترم نے بھی مجھے واٹس ایپ پر اپنا ایک تازہ کلام بھیجا تھا۔کلام تاثیر سے بھرپور ہے۔جو گلگت کا معروف سیاحتی مقام وادی نلتر بشہ کے متعلق تھا۔آگے چل کر کالم میں کلام کے چند اشعار شامل کروں گا۔انھوں نے بتایا کہ مجھے تین مرتبہ وادی نلتر جانے کا اتفاق ہوا۔دوسری اور تیسری سفر کے دوران گیارہ سالوں کا گیپ ہے۔ان گیارہ سالوں میں انسانوں کی غیر ضروری مداخلت نے نلتر کی قدرتی حُسن کو غارت کر دیا ہے۔جگہ جگہ ہوٹلوں کی تعمیر، گاڑیوں کی آمدورفت، سیاحوں کی جانب سے ریپرز پھینکنے کا عمل تیزی سے نیچر کو دِمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔یہ مناظر فطرت پسند انسان کو دکھی کر دیتے ہیں۔الغرض حیدرؔ  صاحب شاعری کی زبان میں یوں کہتے ہیں۔

ارض جی بی کے مقاماتِ حسیں میں ہے شمار

سیر و تفریح میں ترا ثانی نہیں نلتر بشہ

بن رہے ہیں قصر و ہوٹل نِت نئے وادی کے بیچ

جن کے خدشے سے ہے اب زار و حزیں نلتر بشہ

کٹ کے گرتے ہیں درختاں اب مکانوں کی جگہ

قدرتی ماحول ہے نالاں ، زمیں نلتر بشہ

یہ صرف نلتر تک محدود نہیں بلکہ آپ پاکستان کے کسی بھی سیاحتی مقام پر چلے جائیں آپ کو اس طرح کے دل سوز مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔پچھلے سال ایک غیر ملکی سیاح نے K_2 کو دنیا کا گندا ترین پہاڑ قرار دیا تھا۔پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ملک ہے۔اس کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں ہونے کے باوجود سیاحت فروغ نہیں پا سکی۔اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں اور اس سے متعلقہ اداروں کا اس طرف خاطر خواہ توجہ نہ دینا ہے۔

ضلع نگر کے ایک قدیم ہوٹل کے مالک نے مجھے بتایا کہ عالمی سطح پر سیاحت کے رجحان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔یہ ایک مقبول ترین عالمی تفریحی سرگرمی بن چکی ہے۔شہروں کا شور شرابا،بے ہنگم آوازیں، فضائی آلودگی، گہما گہمی، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کے شکار افراد قلبی و ذہنی سکون کے لئے پاکستان کے کسی خاموش اور دل نشین وادی کا رخ کرتے ہیں۔عام طور پر سیاح ایسی وادیوں کی طرف چلے جاتے ہیں جہاں انھیں زیادہ سے زیادہ فطرت کے قریب ہونے کا موقع مل سکے۔جہاں نیچرل بیوٹی میں انسان کا عمل دخل نہ ہو۔مگر بدقسمتی سے ان سیاحتی مقامات کو خراب کرنے کی کوشش تیزی سے جاری ہے۔

 اب یہاں سوئٹزر لینڈ، جرمنی، فرانس، اسپین، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، سویڈن سنگاپور اور متعدد ممالک کے سیاح بھی آرہے ہیں۔دنیا کی بہترین عمارتیں، ہوٹلز، پُرتعیش طعام و قیام کے مراکز، تجارت اور بہت کچھ ان کے پاس ہے۔دنیا کی ہر معیاری چیز پر ان کی حکمرانی ہے۔مگر یہ بناوٹی چیزوں کے اکتائے ہوئے لوگ ہیں۔انھیں نیچر سے دلی لگاؤ ہے۔یہ چند لمحوں کے لیے خود کو فطرت کے قریب کرنا چاہتے ہیں۔جس کے لئے طویل اور کٹھن مسافت طے کر کے یہاں چلے آتے ہیں مگر یہاں کی انسانی سرگرمیوں کو دیکھتے ہی اُکتاہٹ ان کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔یہ ضلع نگر اور ہنزہ کے  پُرتعیش ہوٹلوں میں قیام کے بجائے قدیم اور سادہ ہوٹلوں میں رات گزارنا پسند کرتے ہیں۔لہٰذا ہمیں قدرتی خوب صورتی کو خراب کئے بغیر سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔کالم کو استاد محترم کے اس مقطع کے ساتھ سمیٹنا چاہوں گا۔

گر نہ روکے گی حکومت دستِ جہلا سے تجھے

خالی ہو گی حُسن سے تیری جبیں نلتر بشہ

کر لو حیدرؔ تم دُعا رب سے یہی اب صبح و شام

تاابد قائم رہے مثلِ نگیں نلتر بشہ

IHI
اقبال حسین اقبال

اقبال حسین اقبال کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link