اسرائیل اوردنیا کو لاحق خطرات؟۔| تحریر: شیخ خالد زاہد

پہلے دنیا خاموش نفسا نفسی کا شکار رہی (جسکی بنیادی وجہ سماجی ابلاغ کو سمجھا جا سکتا ہے)لیکن اب جوکچھ ہم لوگ باقاعدہ دیکھ رہے ہیں اسے نفسا نفسی کی عملی شکل کہا جاسکتا ہے جسے غیر منظم حکمت عملی کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے لیکن جب آپ کڑیوں سے کڑیا ں ملائیں گے تو آپ پر واضح ہوتا چلا جائے گا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ایک منظم طریقہ کار کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں یقین ہے کہ قیامت آنی ہے اور جو لوگ تھوڑا بہت بھی دین سے وابسطہ ہیں انہیں معلوم ہے کہ قرب قیامت کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ اس سارے ماحول میں اسرائیل اپنا وہ کردار ادا کر رہا ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے آگاہ کر رکھا ہے۔ دنیا کی اکثریت شائد اس امر سے نا واقف ہو کہ اسرائیل اپنے مذہبی منشور پر کام کر رہا ہے جبکہ دنیا اسے بطور دنیاوی طاقت کے حصول کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ کھلی آنکھوں سے اس سارے منظر نامے کو دیکھیں تو واضح ہے کہ اسرائیل کیوں کسی غیر مسلم مملکت کیساتھ کسی تنازعہ کا شکا ر نہیں رہا۔ کیونکہ اسرائیل اپنے مذہبی مخالف مسلمانوں کو ہی تباہ و برباد کر کے دنیا میں اپنی باقاعدہ اجارہ داری کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اسرائیل جو یہودیوں کی واحدآماجگاہ ہے، اگر مسلمانوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اسکا اگلا شکار عیسائی مذہب کی ریاستیں ہونگی۔معاملات کو عمومی سطح پر حل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔عرصہ دراز سے اسرائیل، فلسطینیوں پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے،یہ مسلمانوں کیلئے دوسری دفعہ ہوا ہے کہ کسی غیر مسلموں کو اپنی زمین دی اور انہوں نے اس پر ایسا بد ترین قبضہ کیا، فلسطینیوں نے انہیں رہنے کیلئے زمین دی تھی تو پہلی دفعہ برِصغیرکے مسلم حکمرانوں نے ایسٹ انڈیا نامی کمپنی کو بھی کاروبار کی اجازت دی تھی جو خطے میں جغرافیائی تبدیلیوں کا سبب بنی۔

اسوقت دنیا میں اسرائیل وہ نام نہاد ریاست ہے جو یہ جانتی ہے یا اس کے فیصلہ ساز دنیاوی اور اپنے مذہبی علوم کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں، یہودی اپنے مذہبی عقائد پر انتہائی شدت پسند ہیں لیکن یہ کہنے کی اعلی سطح پر جرات نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہایوں سے مسلم شدت پسندی کا راگ آلاپنے والے مغربی ذرائع ابلاغ کو کبھی ہندوتوا (ہندو شدت پسندی) اور یہودیوں کی شدید مسلم مخالفت نہیں دیکھائی دے رہی کہ وہ اس کا چرچا کریں اور دنیا پر واضح کریں کہ درحقیقت اسلام سے محبت کرنے والے شدت پسند نہیں بلکہ ہندو اور یہودی مذاہب کے ماننے والے اس پر باقاعدہ عمل پیرا ہوکر اپنی شدت پسندی کا برملا اظہار کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

بھارت نے درپردہ اسرائیل اور امریکہ کی پشت پناہی کی بنیاد پر پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی مذموم سازش کی لیکن اللہ کے فصل و کرم سے ہماری افواج نے ایسا منہ توڑ جواب دیا جس کا انہیں شائد اندازہ نہیں تھا ان کا خیال تھا کہ ہم پاکستانی جس طرح سے اندرونی معاملات میں ایک دوسرے سے نبردآزما رہتے ہیں تو ہم اندر سے بھی ایسے ہی کمزور ہونگے لیکن بھارت کیساتھ ساری دنیا کو یہ بہت اچھی طرح سے سمجھ آچکی ہے کہ پاکستانی اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے (جو اللہ کی طرف سے لاتعداد قربانیوں کی مر ہون منت دی گئی ہے)تمام باہمی اختلافات کو بھلا کر ملک خداداد پاکستان کی دفاعی لکیر بن جاتے ہیں، شائد ہی دنیا کا کوئی ملک ہو جہاں عوام فوج کے شانہ بشانہ باقاعدہ کھڑی ہوتی ہو اس کا منہ بولتا ثبوت بھارت کیساتھ ہونے والی تازہ ترین صورتحال میں دیکھنے میں آیا اور ساری دنیا نے دیکھا۔

امریکہ ایران عرصہ دراز سے سردجنگ میں مبتلا رہے ہیں، لیکن امریکہ نے اسرائیل کو ایران کے خلاف استعمال کیا اور خطے کو شدید مشکلات میں دھکیل دیا اب یہ تنازعہ سگین صورتحال کا شکار ہوتا جارہا ہے دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔کیا ایسا سمجھنے کا وقت آن پہنچا ہے کہ جب دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی ایک مسلم دنیا اور دوسری غیر مسلم۔ ایک طرف تو دنیا میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ کئے جانے والے بدترین انسانیت سوزمظالم پر مظاہرے ہورہے ہیں تو دوسری طرف ایران پر اسرائیل کے حملے مذمت نہیں کی جارہی دنیا کا یہ دوہرا میعار سمجھنا اب اتنا مشکل نہیں رہا شائد انسانیت کی بات کرنے والوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ انڈیا اور اسرائیل، امریکہ کی رضامندی سے ایک ایسے منشور پر کام کر رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد مسلم دنیا کو کسی نا کسی طرح سے غیر مستحکم رکھنا ہے اور جو مستحکم ہیں انہیں کسی طرح سے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا ہے۔

 امریکہ اپنی داخلی حکمتِ عملیوں کی وجہ سے انتشار کا شکار دیکھائی دے رہا ہے اور جگہ جگہ مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جسے ارباب اختیار طاقت سے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں، امریکہ اپنے آپ میں اقوام متحدہ بنا ہوا ہے اور اقوام متحدہ کی اہمیت صرف ایک بین الاقوامی ادارے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ابھی کچھ دن پہلے ہی پاکستان بھارت کے درمیان ہونے والے جنگی تنازع نے خطے میں طاقت کے توازن کو دنیا پر واضح کیااور اب اسی توازن کو برقرار رکھنے میں ایران نے بھی اپنی طاقت کا مظاہر ہ کیا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اسرائیل کی ایران کیخلاف جارحیت اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے بھی ہوسکتی ہے کہ ایران خطے میں اپنے اصولی موقف پر تنہا ہے یا پھرپڑوسی  ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر ایسا بھی تھا تو اسرائیل کو جہاں ایران کی جانب سے بھرپور جواب کا سامنا ہے وہیں خطے کے دیگر ممالک کا ایران کے حق میں سرکاری بیان جاری کرنا بھی کسی دلی صدمے سے کم نہیں۔ اس صدمے سے جہاں امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ کو دھچکا لگاہوگا، اس سے کہیں بڑھ کرخطرناک بات یہ ہوئی کہ چین کے صدر نے بھی   بیان جاری کیا ہے کہ دنیا امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے،اس بیان میں ڈھکے چھپے امریکہ کیلئے بہت سارے پیغامات ہیں تو دوسری طرف خطے میں استحکام کی خاطر ممالک کے ساتھ ہونے کی ایک بہت واشگاف دلیل ہے۔ امریکہ کا اس بیان پر ابھی رد عمل آنا باقی ہے۔ دوسری طرف روس بھی وہ ملک ہے درپردہ ایران کی حمائت کئے ہوئے ہے وقت آنے پر یہ بھی واضح ہوجائے گا۔

 ساری دنیا تماشبین بنی اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھ رہی ہے، دنیا اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ جس خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے یہاں پانچ نیوکلئیر طاقت رکھنے والے ممالک ہیں جن میں اعلانیہ چین، پاکستان، بھارت جبکہ غیر اعلانیہ شمالی کوریا اور ایران ہیں۔ اس لحاظ سے یہ خطہ بارود کا ایسا ڈھیر ہے جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیگا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ اور برطانیہ ایران پر باقاعدہ حملہ کرنے کی تیاری کرتے دیکھائی دے رہے ہیں جو کہ(خاکم بدہن) تیسری عالمی جنگ کی داغ بیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہم سب اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ طاقت کا نشا انتہائی خطرناک ہوتا ہے اور امریکہ اس وقت اس نشے میں دھت ہے اس کا یہ سمجھنا ہے کہ دنیا اس کے ہر عمل پر لبیک کہے گی اور واہ واہ کرے گی۔ جبکہ اس سے مختلف ہوتا محسوس کیا جا رہا ہے جس کی اہم وجہ فلسطینی معصوم بچوں کے خون میں لتھڑے ہوئے ہاتھ ہیں۔ جانے انجانے امریکہ دنیا کو گھسیٹ کر اس عالمی جنگ میں دھکیلنے کی کوششوں میں بھرپور طریقے سے مصروف ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسرائیل کی ایران پر مسلط کی گئی جنگ، فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہے یا پھر ابھی دنیا کومزید بدحالیوں جھیلنا ہے۔ بطور مورخ بہت پھونک پھونک کر لفظوں کو قلم بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اگر ایسا نا کیا گیا تو ہم اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نہیں نبہا پائینگے اور تاریخ کو مسخ کرنے والوں کی صف میں کھڑے کر دئیے جائینگے۔ ہم اللہ رب العز ت کی طرف سے پیش کئے جانے والے معجزوں پر یقین رکھتے ہیں۔آج جو لوگ مادیت پر یقین رکھتے ہیں وہ مغربی طاقتوں سے انتہائی خوفزدہ ہیں وہ یقینا زمین سے جڑے لوگ ہیں لیکن ہم اس دائمی طاقت کے ماننے والے ہیں جس کیلئے کچھ بھی کرنا صرف کن کا محتاج ہوتا ہے اور وہ ہو جاتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حق رہنے کیلئے اور باطل مٹنے کیلئے ہے۔

شیخ خالد زاہد کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link