پاکستان اور عالمی منظر نامہ: پانی کا ضیاع روکیں، ورنہ نئی نسل ڈی ہائیڈریشن سے مر جائے گی۔ | تحریر: سیدہ ایف گیلانی
دنیا ایک ماحولیاتی بحران کی زد میں ہے، اور پانی کا مسئلہ اس بحران کی سب سے سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2050 تک دنیا کی نصف آبادی کو شدید پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔ پاکستان اس فہرست میں اُن ممالک میں شامل ہے جو اس بحران کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف ہماری معیشت، زراعت اور صحت متاثر ہوگی بلکہ آئندہ نسلیں “ڈی ہائیڈریشن” یعنی پانی کی کمی کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔
پانی: خالقِ کائنات کی نعمت، مگر انسان کی ناقدری
قرآن کریم میں ارشاد ہے:“اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا”(سورہ الانبیاء، آیت 30)
یہ آیت نہ صرف پانی کی بنیادی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ انسان کو اس نعمت کی قدر کرنے کی نصیحت بھی کرتی ہے۔ مگر افسوس، آج انسان اسی پانی کو بے دردی سے ضائع کر رہا ہے جیسے یہ کبھی ختم ہی نہ ہوگا۔
پانی کا عالمی بحران
دنیا بھر میں پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے، اور صنعتی آلودگی نے میٹھے پانی کے ذخائر کو زہریلا بنا دیا ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک پانی کے مؤثر استعمال اور ری سائیکلنگ پر زور دے رہے ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ آگاہی اور عملی اقدام بہت محدود ہیں۔
پاکستان کا المیہ
پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1950 میں 5,000 مکعب میٹر تھی، جو اب کم ہو کر صرف 900 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔ ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر یہ رفتار جاری رہی تو پاکستان0 205 تک پانی کی شدید قلت کا شکار ہوگا۔
پانی کی قلت: ایک سست رفتاری سے بڑھتا ہوا ایٹمی بحران
دنیا دہشت گردی، مہنگائی اور جنگوں سے ڈری ہوئی ہے، مگر پانی کی قلت ایک ایسا “خاموش ایٹم بم” ہے جو اگر پھٹا تو نسلِ انسانی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 2.2 ارب آبادی کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں آبی گورننس نہ ہونے کے برابر ہے، خطرہ کہیں زیادہ شدید ہے۔
وجوہات کیا ہیں؟
غیر مستحکم آبی پالیسی
پانی کی چوری اور غیر قانونی کنیکشن
زرعی شعبے میں روایتی، ضیاع کرنے والے طریقے
شہری علاقوں میں لیکیج، فضول استعمال اور ناقص انفراسٹرکچر
انڈسٹریل اور کیمیکل ویسٹ کی نالوں میں نکاسی
نئی نسل کے لیے خطرہ
یہ محض معاشی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ صحت کا ایک سنجیدہ بحران بنتا جا رہا ہے۔ بچے اور نوجوان زیادہ حساس ہوتے ہیں، اور پانی کی کمی اُن میں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشوونما پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ کئی دیہی علاقوں میں بچے آلودہ پانی کے استعمال سے ڈائریا، ہیضہ اور دیگر امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ڈی ہائیڈریشن اب ایک سائلنٹ کلر (خاموش قاتل) بنتا جا رہا ہے۔
کیا کیا جا سکتا ہے؟
پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے قومی سطح پر شعور بیدار کیا جائے۔
زرعی شعبے میں ڈرپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم کو فروغ دیا جائے۔
ری سائیکلنگ اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کو ترجیح دی جائے۔
گھریلو سطح پر پانی بچانے کی عادت اپنائی جائے — جیسے نل بند رکھنا، گاڑی کم پانی سے دھونا وغیرہ۔
مساجد، اسکولز اور دفاتر میں آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
قومی آبی پالیسی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
شہروں میں پانی کا استحصال، دیہات میں محرومی
اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں لوگ کار واش پر نل کھلا چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ تھر، چولستان، بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں لوگ میلوں پیدل چل کر پانی لاتے ہیں — اور وہ بھی اکثر آلودہ۔ یہ تفاوت نہ صرف سماجی ناانصافی ہے بلکہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی بھی۔
آلودہ پانی: موت کا خاموش پیالہ
WHO کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد آبادی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ ہر سال 50 ہزار سے زائد بچے آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ ڈی ہائیڈریشن کا شکار بچہ صرف جسمانی کمزوری میں نہیں جاتا بلکہ ذہنی ارتقاء بھی سست روی کا شکار ہوتا ہے۔ قوم کی ذہنی صلاحیت پانی کے بحران سے برباد ہو رہی ہے!
پانی بچانا، نسل بچانا ہے
پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں، بلکہ زندگی کی اساس ہے۔ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو نہ صرف زراعت تباہ ہوگی، بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی خشک اور بےرنگ ہو جائے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اجتماعی شعور کے ساتھ ذاتی رویے میں تبدیلی لائیں — کیونکہ پانی کی ہر بوند، زندگی کی ایک سانس ہے۔
کیا پانی صرف حکومتی مسئلہ ہے؟
نہیں! یہ ہر فرد کا مسئلہ ہے
اگر ہم نل بند رکھیں، ہم حصہ ڈال رہے ہیں۔
اگر ہم پودوں کو شام کے وقت پانی دیں تو کم پانی میں بہتر اثر ہوتا ہے۔
اگر ہم وضو کرتے وقت احتیاط کریں، تو عبادت میں برکت بھی آتی ہے اور پانی بھی بچتا ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے خود وضو میں کم سے کم پانی استعمال فرمایا، جبکہ ہم دن میں کئی گیلن ضائع کر بیٹھتے ہیں۔
پانی اور تعلیمی ادارے
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں “واٹر سیوینگ کلبز” قائم کیے جانے چاہییں۔ سائنسی منصوبے، تجربات اور آبی تحقیق کو فروغ دیا جائے تاکہ نئی نسل اس بحران کو صرف پڑھنے کا موضوع نہ سمجھے، بلکہ اس کا حل تلاش کرنے میں شریک ہو۔
پانی اور پالیسی: قانون بنائیں، عمل کروائیں
پاکستان میں پانی کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:
پانی کی چوری کو جرم قرار دیا جائے۔
صنعتی اداروں پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لازمی کیے جائیں۔
ڈیمز، ریچارج ویلز، اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے نظام کو فروغ دیا جائے۔
مقامی حکومتوں کو پانی کی نگرانی کا اختیار دیا جائے