عظمت اقبال کا افسانوی مجموعہ ” ادھوری تخلیق”۔ | تبصرہ : مہوش اسد شیخ
پریس فار پیس پے در پے شاہکار کتب شائع کرتا چلا جا رہا ہے۔ جو ان کے کام کے معیاری ہونے کی واضح دلیل ہے۔ ماشا اللہ
دیدہ زیب سرورق کی حامل یہ “ادھوری تخلیق” انڈین مصنف جناب عظمت اقبال صاحب کی شاہکار تخلیق ہے۔ میرے ہاتھوں میں پریس فار پیس کا شائع کردہ پاکستانی ایڈیشن ہے ۔ جسے ہر لحاظ سے بہت اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔
ایک کمی محسوس ہوئی کہ ہندی زبان کے مشکل الفاظ کے معنی ساتھ لکھ دئیے جاتے تو بہت سوں کا بھلا ہو جاتا۔
مصنف نے کتاب کا انتساب اپنی والدہ مرحومہ کے نام کیا ہے ۔لکھتے ہیں
“مرحومہ امی جان کے نام”
“والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد ان کا آنچل زندگی کے سفر میں طویل عرصے تک سایہ فگن رہا اور جب وہ دنیا سے گئیں تب احساس ہوا یتیم ہو گیا۔
مجھے اکثر احساس ہوتا ہے کہ انسان اصل یتیم ماں کے مرنے سے ہوتا ہے۔ باپ مر جائے، ماں یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔
کتاب پر جناب عمران جمیل، قانتہ رابعہ، ڈاکٹر اعظم اوت ڈاکٹر اقبال حسن آزاد کی بیش قیمت آرا موجود ہے۔
“ادھوری تخلیق ایسی کتاب ہے کہ ان 144 صفحات میں صرف 25 افسانے اور چار افسانچے نہیں ہیں بلکہ مصنف نے ہمارے معاشرے کے کتنے ہی ناسور، المیے، ہمارے آس پاس چلتے پھرتے کرداروں کے دکھ درد سمیٹ دئیے ہیں۔ کتنے ہی دکھ تو قاری کو اپنے دکھ محسوس ہونے لگتے ہیں۔ ان کے کرداروں میں اپنا عکس جھلکتا دکھائی دینے لگتا ہے ۔ ان کے قلم نے دو دھاری آری کا کردار ادا کیا ہے۔ نا صرف معاشرے کو بے نقاب ہے بلکہ عام قاری کا دل بھی مٹھی میں بھینچ ڈالا ہے، دل درد سے بھر ڈالا ہے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کتنے ہی حساس قاری اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے۔
کتاب کے عنوان کے ساتھ ساتھ ہر افسانے کا عنوان بہت خوب ہے، جملوں کی بنت مصنف کے قلم کی داد دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ توانائی سے بھرپور کاٹ دار و بے باک قلم ہے۔
ان کے قلم کو ناصرف اپنی کہانی پر بلکہ قاری کے ذہن پر بھی گرفت رکھنا آتا ہے، کہانی چلتے چلتے ایسا پلٹا کھاتی ہے قاری چونک اٹھتا ہے، کہانیاں پڑھتے ہوئے میں نے خود کو مصنف کے لفظوں کے ساتھ خود کو بہتے محسوس کیا، جیسے ہی کہانی کا غیر متوقع دوسرا رخ سامنے آیا، ایک بار تو تنفس رک جاتا رہا، پھر دھیرے دھیرے سانس خارج کرتے ہوئے میں نے دل میں ایک انجانا سا درد ایک کسک سی محسوس کی۔ افسانہ ادھوری تخلیق ،مکتی، تعزیر نفس، اوٹوپسی، جنگلی کتے، اچھے دن، کٹھ پتلیاں دیوار، کھلونا، ادھورا سچ، جلتے بجھتے دیئے، ہمسفر، لیکن، روزی میں برکت، اور سنگلاخ کے اختتام نے چونکا دیا۔
نضال، آگ، مایا مائی لائف، تقصیر، دائرہ، انگوٹھی
کے اختتام پر میں نے دل کو سسکیاں بھرتے محسوس کیا۔
چھپاک کے اختتام پر ایسا ہی محسوس ہوا کہ سدھو میری نگاہوں کے سامنے پلک جھپکنے میں ہی کنویں میں کود گیا میرے ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیے زبان کچھ کہتے کہتے رہ گئی۔ آنکھیں غیر مرئی منظر پر ٹکی رہ گئیں ۔ اف! یہ عظمت اقبال صاحب کے قلم کا جادو۔
افسانہ” عنوان “ ہر مصنف کی ہے۔
ایک ایک صفحے کا افسانچہ بھی اپنے اندر ایک پوری کہانی کتنی ہی ان کہی باتیں سموئے ہوئے تھا۔
میں افسانوں کی کہانی پر ہر گز بات نہیں کروں گی کہ یہ سننے نہیں پڑھنے کی ہیں۔ اتنا کہوں گی ہر تحریر ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ ماشا اللہ
اللہ رب العزت مصنف کے قلم کو مزید توانائی عطا فرمائے آمین ثم آمین
مصنف اور ادارہ دونوں اس شاندار تخلیق کی اشاعت پر داد کے مستحق ہیں ۔