باپ ایک شجرِ سایہ دار۔ | تحریر: سحر شعیل
ہم جو لوگ اس وقت چالیس سے پچاس سال کی عمر میں ہیں ان کے والد ِمحترم کی ایک خوبی جو کہ مشترک تھی وہ ” سنجیدگی ” اور حد سے زیادہ “سنجیدگی” تھی۔ہمارے ابا جی کے قہقہے بہت نایاب ہوتے تھے بلکہ یوں کہیے کہ مسکراہٹ بھی عرصہ دراز بعد ہمارے حصے میں آتی تھی۔ایسے سخت مزاج ابا جی قریباً ہر گھر میں موجود تھے۔ہمیں اپنے بچپن میں لگتا تھا کہ ابا جی کو ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے مگر ہماری تمام تر ضروریات احسن طریقے سے پوری کرنے میں وہ کبھی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔انھیں ہر بچے کی مصروفیات کی باقاعدہ خبر ہوتی تھی اور ہمیں ایسا لگتا تھا کہ انھیں شاید پتہ بھی نہ ہو کہ ہم کون سی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ہماری نادانی کی انتہا تو یہ تھی کہ ہم ابا جی سے کبھی کسی موضوع پر گفتگو کرنے کی جسارت نہیں کر پاتے تھے۔وہ بلاتے تھے تو ڈر جاتے تھے کہ نجانے کیا خطا ہو گئی ہم سے۔ان کی رعب دار اونچی آواز سے سہم جاتے تھے۔وہ گھر پر ہوتے تو بہن بھائیوں میں لڑائی ہونا تو الگ اونچی آواز تک نہیں نکلتی تھی۔ جب کبھی بہن بھائیوں میں لڑائی ہوتی تو اماں جان کا بس ایک جملہ “آ لینے دو تمھارے ابا کو انھیں بتاتی ہوں” اور ہم دبک کر بیٹھ جاتے تھے۔من پسند چیز کی فرمائش کرنا تو ایک طرف تھا ہم ضرورت کی چیزوں کے لئے بھی اماں جان کو نمائندگی کے لئے مجبور کرتے تھے۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا اور ہم بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی دہلیز بھی پار کر نے پر ا گئے تب جا کر ایک بات سمجھ میں آئی کہ والد تو گھر کی چھت ہوتے ہیں اور چھت کی عدم موجودگی میں طوفان،بارش اور بلاؤں سے گھر کا بچنا ناممکن سا ہو جاتا ہے۔بظاہر سخت خول میں لپٹے والدِ محترم اندر سے بہت نرم مزاج کے ہوتے ہیں۔والد بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ گھر کے سربراہ بھی ہوتے ہیں۔اگر والد صاحب کو خاندان کا مالی ستون کہا جائے تو بجا ہو گا۔ ان کی محبت کڑی دھوپ میں گھنا سایہ ہے۔وہ ایک ایسا شجرِ سایہ دار ہیں جو صحرا کی تپتی دھوپ میں خود جھلس جاتا ہے مگر اولاد کو گرم لو کا ایک جھونکا بھی نہیں لگنے دیتا۔وہ زندگی کے ہر کڑے وقت میں ہماری ڈھال بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔اپنا سب کچھ ہم پر نچھاور کرتے ہیں۔ان کی دعائیں سائبان بن کر ہمیں زمانے کے سردو گرم سے محفوظ رکھتی ہیں۔والد کا سایہ اور ان کی رہنمائی زندگی کے اندھیروں میں ایسے ہے جیسے ماہ تاباں ۔
بچوں کی کردار سازی میں والد کا کردار کلیدی ہے۔باپ گھر کا محافظ بھی ہے اور کفیل بھی ہے۔وہ اولاد کی زندگی میں ہمیشہ ایک مثالی کردار ہوتا ہے۔ان کی محبت،شفقت حتی کہ سختی بھی زندگی کا بہترین سرمایہ ہوتی ہے۔ان کی سخت مزاجی میں کتنا پیا رچھپا ہوتا ہے اس کااِدراک وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔والد گھر کی عمارت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ان کی حیثیت درخت کی جڑ کی مانند ہوتی ہے جو خاندان کو جوڑے رکھتے ہیں۔عموماً دیکھا جاتا ہے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد بھائیوں اور بہنوں میں فاصلے آ جاتے ہیں۔
والد کی شفقت اور سر پر ان کا ہاتھ زندگی میں آگے بڑھنے اور مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ان کی سخت مزاجی بھی ہمیں زندگی کے سبق سکھا تی ہے۔وہ اپنی ساری زندگی اولاد کو ایک اچھی زندگی دینے کے لئے مشقت میں گزار دیتے ہیں۔کسی شاعر نے باپ کی عظمت کو یوں شعر کی لڑی میں پرویا ہے:
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
انسانی تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ کہ ہر کامیابی کی ایک قیمت ہوتی ہے اور ہمیشہ یہ قیمت والدین ادا کرتے ہیں بشرطیکہ وہ حیات ہوں۔ وہ اپنی جوانی کی تمام تر توانائی اپنے بچوں کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔والدہ کے بے مثال کردار پر لاکھوں تحاریر اور خراجِ تحسین کے لئے ہزاروں کتب میں اذکار موجود ہوں گے مگر والد کا کردار ایک خاموش ہیرو کا کردار ہے جو اپنی تمام تر قابلیتوں اور صلاحیتوں کو صرف اور صرف اپنی اولاد کے بہتر مستقبل پر نچھاور کر دیتا ہے۔ساری زندگی وہ اپنی خواہشات پر اولاد کو ترجیح دیتا ہے۔اپنے بچوں کی بہتر زندگی کے لئے وہ دن رات محنت کرتا ہے۔اپنی حیات کے بہترین سال اولاد کو بہتر مستقبل دینے کے لئے وقف کر دیتا ہےاور ایسے میں اکثر ایک جملہ جو اولاد کی طرف سے ابا جی کو سننا پڑتا ہے وہ یہ کہ
“ابا جی آپ نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟”
یہ جملہ اس بوڑھے باپ کو زندہ درگور کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے جس نے اپنی جوانی اولاد کے سکھ اور بہتر مستقبل پر قربان کر دی ہو۔اس کے جھریوں بھرے ہاتھوں سے لکیریں تک گھِس چکی ہوتی ہیں۔ سالوں کی مشقت بھی اسے نہیں تھکا پاتی مگر اولاد کا یہ جملہ اس مہربان انسان کو تھکا دیتا ہے۔ایسے میں اسے اولاد کا سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ہم اس معاملے میں سدا کے گنوار ہی رہے ہیں کہ ہمیں لگتا شایدوالدین کو ہماری کمائی ہوئی دولت چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔انھیں مان چاہیے ہوتاہے۔عزت چاہیے ہوتی ہے۔سب سے بڑھ کر وقت چاہیے ہوتا ہے۔انھیں ہماری مسکراہٹ چاہیے ہوتی ہے۔یہ اولاد کی بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ اس کے پاس والدین کو دینے کے لئے وقت نہ ہو۔یہاں ایک اور نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ معاشرے کا عام مشاہدہ ہے کہ اگر والد دنیا سے رخصت ہو جائیں تو اولاد والدہ کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگتی ہے مگر اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جائے اور والدہ کے رخصت ہونے پر والد تنہا رہ جائیں تو ایسے میں یہ ہستی،یہ خاموش محسن مزید خاموش ہو جاتا ہے۔تب اولاد کی بے اعتنائی اسے اندر ہی اندر مارنے لگتی ہے۔
میں نے اکثر ایسا دیکھا ہے کہ جب باپ نحیف و نزار بسترِ مرگ پر پڑا ہے تب بھی اسے اپنے آپ سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ میرے بچے کہیں کسی پریشانی میں تو نہیں۔یقین مانیےوہ نحیف اور کمزور ہاتھ اگر تب بھی ہمارے سر پر رکھے جائیں تو جو سکون آپ کو اس وقت ملے گا وہ دنیا و مافیہا میں کہیں نہیں۔
والدین کی اطاعت ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے۔جہاں جنت ماں کے قدموں تلے ہے وہیں باپ کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی کہا گیا ہے۔اگر ہم۔ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک حیات ہے تو ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہنے دیں اور اگر وہ اس دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں تو ان کے لئے دعائے خیر کریں اور دنیا میں نیک اعمال کریں کیوں کہ نیک اولاد بھی صدقہ جاریہ ہے۔